Search

Ads

Sunday, January 19, 2014

قائد کی دو نایاب تقاریر کی ریکارڈنگ

قائد کی دو نایاب تقاریر کی ریکارڈنگ
‎قائد کی دو نایاب تقاریر کی ریکارڈنگ

نذیر انبالوی | دسمبر 2013
 0 
نومبر 2011ء کی بات ہے، پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کے ڈائریکڑ جنرل، مرتضیٰ سولنگی نے بھارت کا دورہ کیا۔ وہ بھارتی دارالحکومت، نئی دہلی میں واقع آل انڈیاریڈیو کے صدر دفتر بھی گئے۔ وہیں ان پر انکشاف ہوا کہ بانی ٔپاکستان، قائد اعظم محمد علی جناح کی ایک مشہور تقریر کی ریکارڈنگ دفتر میں محفوظ ہے۔ 11اگست 1947ء کو پہلی آئین ساز اسمبلی کے اجلاس میں قائد نے یہ تقریر فرمائی تھی۔
یاد رہے، قائد اعظم کی تمام اہم تقاریر کی اصل اور نقل شدہ ریکارڈنگز ریڈیو پاکستان کے پاس محفوظ ہیں۔ مگر اس نایاب ذخیرے میں تین اہم تقاریر عنقا تھیں۔ اسی لیے ریکارڈنگ موجود ہونے کی خبرنے مرتضیٰ سولنگی کو چونکا دیا۔
پھرانھوں نے آل انڈیا ریڈیو کے ڈائریکڑ جنرل، لیلادھر منڈولی سے زبانی درخواست کی کہ مذکورہ بالا تقریر ڈھونڈ کر ریڈیو پاکستان کو عنایت کی جائے۔ لیلا دھر نے ہامی بھر لی۔ سولنگی صاحب پاکستان چلے آئے۔
لیکن چار ماہ گزر گئے، پڑوس سے کوئی جواب نہ آیا۔ اُدھر مرتضیٰ سولنگی تقریر کی ریکارڈنگ حاصل کرنے کے لیے بے تاب تھے۔ کیونکہ 11اگست والی تقریر میں قائد نے مستقبل کے پاکستان کا وژن پیش کیا تھا اور آج بھی اکثر اس کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ چناںچہ 29 مارچ 2013ء کو انھوں نے ڈائریکٹر جنرل آل انڈیا ریڈیو کے نام سرکاری خط لکھ کر باقاعدہ طور پر تقریر کی ریکارڈنگ طلب کر لی۔
بھارت کی بیوروکریسی سست روی میں عالمی شہرت رکھتی ہے۔ لہٰذا معاملہ کچھوے کی چال سے آگے بڑھا۔ خدا خدا کرکے آل انڈیا ریڈیو سے جواب آیا کہ اس کے ذخیرہ ریکارڈنگ میں 11اگست والی تقریر موجود نہیں، تاہم جناح صاحب کی دو دیگر تقاریر کی ’’ماسٹر ریکارڈنگ ‘‘ مل گئی ہے۔ خوش قسمتی سے یہ وہی بقیہ تقاریر تھیں جن کی ریڈیو پاکستان کے پاس ریکارڈنگ موجود نہیں۔
پہلی تقریر انتقال اقتدار کا منصوبہ جاری ہونے کے بعد 3جون 1947ء کو کی گئی۔ اسی تقریر کے آخر میں قائد اعظم نے ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کا نعرہ لگایا جو لکھے متن میں درج نہ تھا۔ یوں آل انڈیا ریڈیو سے پہلی بار کروڑوں مسلمانوں کے دلوں کی دھڑکن بن جانے والا نعرہ نشر ہوا۔
قائد نے دوسری تقریر 14اگست کو آئین ساز اسمبلی کے اختتامی اجلاس میں کی۔ یہ بھی نئی مملکت کے خدو خال، عزائم اور راہ میں حائل دشواریاں واضح کرتی ہے۔
ریڈیو پاکستان کے پاس درج بالا دونوں اہم تقاریر کی نقل شدہ ریکارڈنگ موجود تھی۔ لہٰذا آل انڈیا ریڈیو کو پھر خط لکھ کر درخواست کی گئی کہ براہِ مہربانی ان تقاریر کی ماسٹر ریکارڈنگ ہی بھجو ا دیجیے۔ لیکن یہ معاملہ بھی بھارتی بیوروکریسی و حکومت کے لیے پہاڑ میں مثل فرہاد نہر کھودنے کے مترادف بن گیا ۔
پہلے تو سرکاری میڈیا کو کنٹرول کرنے والے خود مختار ادارے، پر سار بھارتی نے تقاریر پاکستان کو دینے سے انکار کردیا۔ تب یہ معاملہ ’’معلومات جاننے کے حق‘‘ (Right to Information)سے متعلق مشہور بھارتی راہنما، سبھاش چندر اگروال نے اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔
انھوں نے سنٹرل انفارمیشن کمیشن میں یہ درخواست دائر کر دی: ’’ جو ہندوستانی راہنما پاکستان چلے گئے ہیں، ان کی تقاریر منظر عام پر لائی جائیں۔‘‘ ان میں قائد اعظم کی وہ سب تقاریر بھی شامل تھیں جو آل انڈیا ریڈیو نے ریکارڈ کی تھیں۔
اب پھر بھارتی بیوروکریسی میں دھینگا مُشتیشروع ہوگئی۔ یہ معاملہ دراصل دو سرکاری محکموں، وزارت اطلاعات اور وزارت خارجہ سے وابستہ تھا۔ وزارت خارجہ سے اس لیے کہ بھارت میں اب جناح صاحب ’’غیر ملکی ‘‘ سمجھے جاتے ہیں۔ نیز پاک بھارت سے متعلق تمام معاملات کا آخری فیصلہ بھارتی وزارت خارجہ ہی میں ہوتا ہے۔
وزارت اطلاعات نے تو آخر ریکارڈنگ جاری کرنے کی ہدایات دے دیں، مگر معاملہ وزارت خارجہ میں اٹک گیا۔ دراصل 11اور 14اگست کی تقاریر قائدکو ایک روادار، امن پسند اور بے تعصب راہنما کی حیثیت سے پیش کرتی ہیں۔ وہ دنیا والوں کو دکھاتی ہیں کہ بانی ٔ پاکستان ذہنی و قلبی لحاظ سے بڑی وسعت کے مالک تھے۔
دوسری طرف ہر بھارتی حکومت کی شعوری کوشش ہوتی ہے کہ بانی ٔپاکستان کو تعصب پسند، ہندو دشمن اور انتہا پسند ثابت کیا جائے۔ چونکہ درج بالا دونوں تقاریر اس انداز فکر کی نفی کرتی ہیں، لہٰذا بھارتی وزارت خارجہ انھیں جاری کرنے سے احتراز برتتی رہی ۔
واضح رہے، 1947ء میں موجودہ پاکستانی علاقے میں ایسا کوئی ریڈیو اِسٹیشن موجود نہ تھا جو پوری باریکی و صفائی سے اہم ہندوستانی راہنمائوں کی تقاریر ریکارڈ کر سکتا۔ تب لاہور اور پشاور کے ریڈیواسٹیشن ’’بی کلاس‘‘ میں آتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ قائد اعظم کی11اور 14اگست کی تقاریر ریکارڈ کرنے کے لیے آل انڈیا ریڈیو سے ٹیمیں بلائی گئی تھیں۔
11اگست والی تقریر بی بی سی کی ایک ٹیم نے بھی ریکارڈ کی۔ تاہم وہ اب اس کے ذخیرے میں بھی دستیاب نہیں۔ ریڈیو پاکستان کے سابق ڈائریکٹر جنرل مرتضیٰ سولنگی کا خیال ہے کہ اس اہم تقریر کی ریکارڈنگ ہندو میموریل میوزیم و لائبریری، نئی دہلی میں محفوظ ہو گی۔ تاہم بھارتی حکومت بوجہ اُسے پاکستان کے حوالے نہیں کرنا چاہتی۔
یاد رہے، 11اگست والی تقریر ہی نے 2005ء میں انتہا پسند ہندو جماعت، بھارتیہ جنتا پارٹی کے سربراہ، ایل کے ایڈوانی کو مستعٰفی ہونے پر مجبور کردیا تھا۔ یہ انوکھا واقعہ قابل ذکر ہے۔
ہوا یہ کہ 2005ء میں ایل کے ایڈوانی نے پاکستان کا دورہ کیا۔ وہ بابائے قوم کو خراج عقیدت پیش کرنے مقبرہ قائد اعظم بھی گئے۔ وہاں موصوف نے بانی ٔ پاکستان کی کچھ یوں تحسین فرمائی:
’’تاریخ میں کئی راہنما انمٹ نقوش ثبت کرچکے۔ لیکن چند ہی ہیں جن کے ہاتھوں تاریخ تخلیق ہوئی۔ انہی نایاب افراد میں قائد اعظم محمد علی جناح بھی شامل ہیں۔ جب وہ نوجوان تھے، تو تحریک آزادی کی ممتاز راہنما، سروجنی نائیڈو نے انھیں ہندو مسلم اتحاد کے سفیر کہہ کر پکارا تھا۔ انھوں نے 11اگست 1947ء کو پاکستان کی آئین ساز اسمبلی سے جو خطاب کیا، وہ کلاسیک کا درجہ رکھتا ہے۔ وہ ایک سیکولر مملکت کی نوید سناتا ہے جہاں ہر شہری آزادی سے من پسند مذہب اختیار کرسکتا ہے۔ جہاں حکومت مذہب کی بنیاد پر شہریوں کے مابین تفریق نہیں کرتی۔ میں اس عظیم شخصیت کو پُر تعظیم نذرانہ عقیدت پیش کرتا ہوں…‘‘
یہ الفاظ لکھ کر موصوف بھارت واپس پہنچے، تو بھارتیہ جنتا پارٹی سمیت تمام انتہا پسند جماعتوں نے ایل کے ایڈوانی کو آڑے ہاتھوں لیا۔ دراصل انتہا پسند ہندو تو قائد اعظم ہی کو تقسیم ہند کا ذمے دار سمجھتے ہیں۔ لہٰذا اعتدال پسند ہندوئوں کی حمایت کے باوجود ایڈوانی کو بی جے پی کی قیادت چھوڑنا پڑی۔
14اگست کی تقریر
ذیل میں قائد اعظم کی 14 اگست والی تقریر کا خلاصہ پیش خدمت ہے:
’’میں شاہ برطانیہ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انھوں نے پاکستان کی آئین ساز اسمبلی اور میرے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔
’’ہماری سعی ہے کہ ہم پاکستان میں آباد تمام فرقوں کے لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کریں۔ مجھے یقین ہے، ہر پاکستانی شہری ہمارے نظریۂ فلاحی خدمت سے تحریک حاصل کرے گا۔ وہ اتحاد و یگانگت کے ساتھ ایسی تمام سیاسی و شہری خصوصیات سے متصف ہوں گے جو ایک قوم کو عظیم بناتی ہے۔
’’میں (انگریز) حکومت اور افواج میں شامل ان (غیر مسلم) مرد و زن کے جوش و جذبے کی قدر کرتا ہوں جنھوں نے بہ رضا و رغبت پاکستان کی رضا کارانہ خدمت کرنے کے لیے خود کو پیش کیا۔ ہم انھیں خوش رکھنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ ان کے ساتھ تمام شہریوں کے مانند برابری کا سلوک کیا جائے گا۔‘‘
’’اکبر اعظم نے غیر مسلموں کے ساتھ رواداری اور نیک نیتی کا جو سلوک کیا، وہ کوئی نئی بات نہیں۔ تیرہ صدیاں قبل جب نبی کریم ﷺنے یہود و نصاریٰ کو مفتوح کیا، ان کے ساتھ زبانی نہیں عملی طور پر نہایت شاندار سلوک فرمایا۔‘‘
’’اس موقع پر آپﷺ نے کمال درجے کی رواداری کا مظاہرہ فرمایا اور ان کے ایمان و مذہب کی تعظیم فرمائی۔ مسلمانوں نے جہاں بھی حکمرانی کی، ان کا دور انہی انسان دوست اعمال اور عظیم اصولوں سے عبارت ہے۔ ہمیں بھی انہی اصولوں پر عمل کرنا اور ان کے مطابق چلنا ہوگا۔
’’میں سبھی کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ پاکستان اپنے پڑوسیوں اور دنیا کے سب ممالک سے دوستانہ تعلقات قائم کرنا چاہتا ہے۔‘‘
- See more at: http://urdudigest.pk/2013/12/quid-ki-takarir-ki-recording#sthash.ToNWJQmT.dpuf‎
نذیر انبالوی | دسمبر 2013
0
نومبر 2011ء کی بات ہے، پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کے ڈائریکڑ جنرل، مرتضیٰ سولنگی نے بھارت کا دورہ کیا۔ وہ بھارتی دارالحکومت، نئی دہلی میں واقع آل انڈیاریڈیو کے صدر دفتر بھی گئے۔ وہیں ان پر انکشاف ہوا کہ بانی ٔپاکستان، قائد اعظم محمد علی جناح کی ایک مشہور تقریر کی ریکارڈنگ دفتر میں محفوظ ہے۔ 11اگست 1947ء کو پہلی آئین ساز اسمبلی کے اجلاس میں قائد نے یہ تقریر فرمائی تھی۔
یاد رہے، قائد اعظم کی تمام اہم تقاریر کی اصل اور نقل شدہ ریکارڈنگز ریڈیو پاکستان کے پاس محفوظ ہیں۔ مگر اس نایاب ذخیرے میں تین اہم تقاریر عنقا تھیں۔ اسی لیے ریکارڈنگ موجود ہونے کی خبرنے مرتضیٰ سولنگی کو چونکا دیا۔
پھرانھوں نے آل انڈیا ریڈیو کے ڈائریکڑ جنرل، لیلادھر منڈولی سے زبانی درخواست کی کہ مذکورہ بالا تقریر ڈھونڈ کر ریڈیو پاکستان کو عنایت کی جائے۔ لیلا دھر نے ہامی بھر لی۔ سولنگی صاحب پاکستان چلے آئے۔
لیکن چار ماہ گزر گئے، پڑوس سے کوئی جواب نہ آیا۔ اُدھر مرتضیٰ سولنگی تقریر کی ریکارڈنگ حاصل کرنے کے لیے بے تاب تھے۔ کیونکہ 11اگست والی تقریر میں قائد نے مستقبل کے پاکستان کا وژن پیش کیا تھا اور آج بھی اکثر اس کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ چناںچہ 29 مارچ 2013ء کو انھوں نے ڈائریکٹر جنرل آل انڈیا ریڈیو کے نام سرکاری خط لکھ کر باقاعدہ طور پر تقریر کی ریکارڈنگ طلب کر لی۔
بھارت کی بیوروکریسی سست روی میں عالمی شہرت رکھتی ہے۔ لہٰذا معاملہ کچھوے کی چال سے آگے بڑھا۔ خدا خدا کرکے آل انڈیا ریڈیو سے جواب آیا کہ اس کے ذخیرہ ریکارڈنگ میں 11اگست والی تقریر موجود نہیں، تاہم جناح صاحب کی دو دیگر تقاریر کی ’’ماسٹر ریکارڈنگ ‘‘ مل گئی ہے۔ خوش قسمتی سے یہ وہی بقیہ تقاریر تھیں جن کی ریڈیو پاکستان کے پاس ریکارڈنگ موجود نہیں۔
پہلی تقریر انتقال اقتدار کا منصوبہ جاری ہونے کے بعد 3جون 1947ء کو کی گئی۔ اسی تقریر کے آخر میں قائد اعظم نے ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کا نعرہ لگایا جو لکھے متن میں درج نہ تھا۔ یوں آل انڈیا ریڈیو سے پہلی بار کروڑوں مسلمانوں کے دلوں کی دھڑکن بن جانے والا نعرہ نشر ہوا۔
قائد نے دوسری تقریر 14اگست کو آئین ساز اسمبلی کے اختتامی اجلاس میں کی۔ یہ بھی نئی مملکت کے خدو خال، عزائم اور راہ میں حائل دشواریاں واضح کرتی ہے۔
ریڈیو پاکستان کے پاس درج بالا دونوں اہم تقاریر کی نقل شدہ ریکارڈنگ موجود تھی۔ لہٰذا آل انڈیا ریڈیو کو پھر خط لکھ کر درخواست کی گئی کہ براہِ مہربانی ان تقاریر کی ماسٹر ریکارڈنگ ہی بھجو ا دیجیے۔ لیکن یہ معاملہ بھی بھارتی بیوروکریسی و حکومت کے لیے پہاڑ میں مثل فرہاد نہر کھودنے کے مترادف بن گیا ۔
پہلے تو سرکاری میڈیا کو کنٹرول کرنے والے خود مختار ادارے، پر سار بھارتی نے تقاریر پاکستان کو دینے سے انکار کردیا۔ تب یہ معاملہ ’’معلومات جاننے کے حق‘‘ (Right to Information)سے متعلق مشہور بھارتی راہنما، سبھاش چندر اگروال نے اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔
انھوں نے سنٹرل انفارمیشن کمیشن میں یہ درخواست دائر کر دی: ’’ جو ہندوستانی راہنما پاکستان چلے گئے ہیں، ان کی تقاریر منظر عام پر لائی جائیں۔‘‘ ان میں قائد اعظم کی وہ سب تقاریر بھی شامل تھیں جو آل انڈیا ریڈیو نے ریکارڈ کی تھیں۔
اب پھر بھارتی بیوروکریسی میں دھینگا مُشتیشروع ہوگئی۔ یہ معاملہ دراصل دو سرکاری محکموں، وزارت اطلاعات اور وزارت خارجہ سے وابستہ تھا۔ وزارت خارجہ سے اس لیے کہ بھارت میں اب جناح صاحب ’’غیر ملکی ‘‘ سمجھے جاتے ہیں۔ نیز پاک بھارت سے متعلق تمام معاملات کا آخری فیصلہ بھارتی وزارت خارجہ ہی میں ہوتا ہے۔
وزارت اطلاعات نے تو آخر ریکارڈنگ جاری کرنے کی ہدایات دے دیں، مگر معاملہ وزارت خارجہ میں اٹک گیا۔ دراصل 11اور 14اگست کی تقاریر قائدکو ایک روادار، امن پسند اور بے تعصب راہنما کی حیثیت سے پیش کرتی ہیں۔ وہ دنیا والوں کو دکھاتی ہیں کہ بانی ٔ پاکستان ذہنی و قلبی لحاظ سے بڑی وسعت کے مالک تھے۔
دوسری طرف ہر بھارتی حکومت کی شعوری کوشش ہوتی ہے کہ بانی ٔپاکستان کو تعصب پسند، ہندو دشمن اور انتہا پسند ثابت کیا جائے۔ چونکہ درج بالا دونوں تقاریر اس انداز فکر کی نفی کرتی ہیں، لہٰذا بھارتی وزارت خارجہ انھیں جاری کرنے سے احتراز برتتی رہی ۔
واضح رہے، 1947ء میں موجودہ پاکستانی علاقے میں ایسا کوئی ریڈیو اِسٹیشن موجود نہ تھا جو پوری باریکی و صفائی سے اہم ہندوستانی راہنمائوں کی تقاریر ریکارڈ کر سکتا۔ تب لاہور اور پشاور کے ریڈیواسٹیشن ’’بی کلاس‘‘ میں آتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ قائد اعظم کی11اور 14اگست کی تقاریر ریکارڈ کرنے کے لیے آل انڈیا ریڈیو سے ٹیمیں بلائی گئی تھیں۔
11اگست والی تقریر بی بی سی کی ایک ٹیم نے بھی ریکارڈ کی۔ تاہم وہ اب اس کے ذخیرے میں بھی دستیاب نہیں۔ ریڈیو پاکستان کے سابق ڈائریکٹر جنرل مرتضیٰ سولنگی کا خیال ہے کہ اس اہم تقریر کی ریکارڈنگ ہندو میموریل میوزیم و لائبریری، نئی دہلی میں محفوظ ہو گی۔ تاہم بھارتی حکومت بوجہ اُسے پاکستان کے حوالے نہیں کرنا چاہتی۔
یاد رہے، 11اگست والی تقریر ہی نے 2005ء میں انتہا پسند ہندو جماعت، بھارتیہ جنتا پارٹی کے سربراہ، ایل کے ایڈوانی کو مستعٰفی ہونے پر مجبور کردیا تھا۔ یہ انوکھا واقعہ قابل ذکر ہے۔
ہوا یہ کہ 2005ء میں ایل کے ایڈوانی نے پاکستان کا دورہ کیا۔ وہ بابائے قوم کو خراج عقیدت پیش کرنے مقبرہ قائد اعظم بھی گئے۔ وہاں موصوف نے بانی ٔ پاکستان کی کچھ یوں تحسین فرمائی:
’’تاریخ میں کئی راہنما انمٹ نقوش ثبت کرچکے۔ لیکن چند ہی ہیں جن کے ہاتھوں تاریخ تخلیق ہوئی۔ انہی نایاب افراد میں قائد اعظم محمد علی جناح بھی شامل ہیں۔ جب وہ نوجوان تھے، تو تحریک آزادی کی ممتاز راہنما، سروجنی نائیڈو نے انھیں ہندو مسلم اتحاد کے سفیر کہہ کر پکارا تھا۔ انھوں نے 11اگست 1947ء کو پاکستان کی آئین ساز اسمبلی سے جو خطاب کیا، وہ کلاسیک کا درجہ رکھتا ہے۔ وہ ایک سیکولر مملکت کی نوید سناتا ہے جہاں ہر شہری آزادی سے من پسند مذہب اختیار کرسکتا ہے۔ جہاں حکومت مذہب کی بنیاد پر شہریوں کے مابین تفریق نہیں کرتی۔ میں اس عظیم شخصیت کو پُر تعظیم نذرانہ عقیدت پیش کرتا ہوں…‘‘
یہ الفاظ لکھ کر موصوف بھارت واپس پہنچے، تو بھارتیہ جنتا پارٹی سمیت تمام انتہا پسند جماعتوں نے ایل کے ایڈوانی کو آڑے ہاتھوں لیا۔ دراصل انتہا پسند ہندو تو قائد اعظم ہی کو تقسیم ہند کا ذمے دار سمجھتے ہیں۔ لہٰذا اعتدال پسند ہندوئوں کی حمایت کے باوجود ایڈوانی کو بی جے پی کی قیادت چھوڑنا پڑی۔
14اگست کی تقریر
ذیل میں قائد اعظم کی 14 اگست والی تقریر کا خلاصہ پیش خدمت ہے:
’’میں شاہ برطانیہ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انھوں نے پاکستان کی آئین ساز اسمبلی اور میرے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔
’’ہماری سعی ہے کہ ہم پاکستان میں آباد تمام فرقوں کے لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کریں۔ مجھے یقین ہے، ہر پاکستانی شہری ہمارے نظریۂ فلاحی خدمت سے تحریک حاصل کرے گا۔ وہ اتحاد و یگانگت کے ساتھ ایسی تمام سیاسی و شہری خصوصیات سے متصف ہوں گے جو ایک قوم کو عظیم بناتی ہے۔
’’میں (انگریز) حکومت اور افواج میں شامل ان (غیر مسلم) مرد و زن کے جوش و جذبے کی قدر کرتا ہوں جنھوں نے بہ رضا و رغبت پاکستان کی رضا کارانہ خدمت کرنے کے لیے خود کو پیش کیا۔ ہم انھیں خوش رکھنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ ان کے ساتھ تمام شہریوں کے مانند برابری کا سلوک کیا جائے گا۔‘‘
’’اکبر اعظم نے غیر مسلموں کے ساتھ رواداری اور نیک نیتی کا جو سلوک کیا، وہ کوئی نئی بات نہیں۔ تیرہ صدیاں قبل جب نبی کریم ﷺنے یہود و نصاریٰ کو مفتوح کیا، ان کے ساتھ زبانی نہیں عملی طور پر نہایت شاندار سلوک فرمایا۔‘‘
’’اس موقع پر آپﷺ نے کمال درجے کی رواداری کا مظاہرہ فرمایا اور ان کے ایمان و مذہب کی تعظیم فرمائی۔ مسلمانوں نے جہاں بھی حکمرانی کی، ان کا دور انہی انسان دوست اعمال اور عظیم اصولوں سے عبارت ہے۔ ہمیں بھی انہی اصولوں پر عمل کرنا اور ان کے مطابق چلنا ہوگا۔
’’میں سبھی کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ پاکستان اپنے پڑوسیوں اور دنیا کے سب ممالک سے دوستانہ تعلقات قائم کرنا چاہتا ہے۔‘‘

قائد کی دو نایاب تقاریر کی ریکارڈنگ

نذیر انبالوی | دسمبر 2013
نومبر 2011ء کی بات ہے، پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کے ڈائریکڑ جنرل، مرتضیٰ سولنگی نے بھارت کا دورہ کیا۔ وہ بھارتی دارالحکومت، نئی دہلی میں واقع آل انڈیاریڈیو کے صدر دفتر بھی گئے۔ وہیں ان پر انکشاف ہوا کہ بانی ٔپاکستان، قائد اعظم محمد علی جناح کی ایک مشہور تقریر کی ریکارڈنگ دفتر میں محفوظ ہے۔ 11اگست 1947ء کو پہلی آئین ساز اسمبلی کے اجلاس میں قائد نے یہ تقریر فرمائی تھی۔
یاد رہے، قائد اعظم کی تمام اہم تقاریر کی اصل اور نقل شدہ ریکارڈنگز ریڈیو پاکستان کے پاس محفوظ ہیں۔ مگر اس نایاب ذخیرے میں تین اہم تقاریر عنقا تھیں۔ اسی لیے ریکارڈنگ موجود ہونے کی خبرنے مرتضیٰ سولنگی کو چونکا دیا۔
پھرانھوں نے آل انڈیا ریڈیو کے ڈائریکڑ جنرل، لیلادھر منڈولی سے زبانی درخواست کی کہ مذکورہ بالا تقریر ڈھونڈ کر ریڈیو پاکستان کو عنایت کی جائے۔ لیلا دھر نے ہامی بھر لی۔ سولنگی صاحب پاکستان چلے آئے۔
لیکن چار ماہ گزر گئے، پڑوس سے کوئی جواب نہ آیا۔ اُدھر مرتضیٰ سولنگی تقریر کی ریکارڈنگ حاصل کرنے کے لیے بے تاب تھے۔ کیونکہ 11اگست والی تقریر میں قائد نے مستقبل کے پاکستان کا وژن پیش کیا تھا اور آج بھی اکثر اس کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ چناںچہ 29 مارچ 2013ء کو انھوں نے ڈائریکٹر جنرل آل انڈیا ریڈیو کے نام سرکاری خط لکھ کر باقاعدہ طور پر تقریر کی ریکارڈنگ طلب کر لی۔
بھارت کی بیوروکریسی سست روی میں عالمی شہرت رکھتی ہے۔ لہٰذا معاملہ کچھوے کی چال سے آگے بڑھا۔ خدا خدا کرکے آل انڈیا ریڈیو سے جواب آیا کہ اس کے ذخیرہ ریکارڈنگ میں 11اگست والی تقریر موجود نہیں، تاہم جناح صاحب کی دو دیگر تقاریر کی ’’ماسٹر ریکارڈنگ ‘‘ مل گئی ہے۔ خوش قسمتی سے یہ وہی بقیہ تقاریر تھیں جن کی ریڈیو پاکستان کے پاس ریکارڈنگ موجود نہیں۔
پہلی تقریر انتقال اقتدار کا منصوبہ جاری ہونے کے بعد 3جون 1947ء کو کی گئی۔ اسی تقریر کے آخر میں قائد اعظم نے ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کا نعرہ لگایا جو لکھے متن میں درج نہ تھا۔ یوں آل انڈیا ریڈیو سے پہلی بار کروڑوں مسلمانوں کے دلوں کی دھڑکن بن جانے والا نعرہ نشر ہوا۔
قائد نے دوسری تقریر 14اگست کو آئین ساز اسمبلی کے اختتامی اجلاس میں کی۔ یہ بھی نئی مملکت کے خدو خال، عزائم اور راہ میں حائل دشواریاں واضح کرتی ہے۔
ریڈیو پاکستان کے پاس درج بالا دونوں اہم تقاریر کی نقل شدہ ریکارڈنگ موجود تھی۔ لہٰذا آل انڈیا ریڈیو کو پھر خط لکھ کر درخواست کی گئی کہ براہِ مہربانی ان تقاریر کی ماسٹر ریکارڈنگ ہی بھجو ا دیجیے۔ لیکن یہ معاملہ بھی بھارتی بیوروکریسی و حکومت کے لیے پہاڑ میں مثل فرہاد نہر کھودنے کے مترادف بن گیا ۔
پہلے تو سرکاری میڈیا کو کنٹرول کرنے والے خود مختار ادارے، پر سار بھارتی نے تقاریر پاکستان کو دینے سے انکار کردیا۔ تب یہ معاملہ ’’معلومات جاننے کے حق‘‘ (Right to Information)سے متعلق مشہور بھارتی راہنما، سبھاش چندر اگروال نے اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔
انھوں نے سنٹرل انفارمیشن کمیشن میں یہ درخواست دائر کر دی: ’’ جو ہندوستانی راہنما پاکستان چلے گئے ہیں، ان کی تقاریر منظر عام پر لائی جائیں۔‘‘ ان میں قائد اعظم کی وہ سب تقاریر بھی شامل تھیں جو آل انڈیا ریڈیو نے ریکارڈ کی تھیں۔
اب پھر بھارتی بیوروکریسی میں دھینگا مُشتیشروع ہوگئی۔ یہ معاملہ دراصل دو سرکاری محکموں، وزارت اطلاعات اور وزارت خارجہ سے وابستہ تھا۔ وزارت خارجہ سے اس لیے کہ بھارت میں اب جناح صاحب ’’غیر ملکی ‘‘ سمجھے جاتے ہیں۔ نیز پاک بھارت سے متعلق تمام معاملات کا آخری فیصلہ بھارتی وزارت خارجہ ہی میں ہوتا ہے۔
وزارت اطلاعات نے تو آخر ریکارڈنگ جاری کرنے کی ہدایات دے دیں، مگر معاملہ وزارت خارجہ میں اٹک گیا۔ دراصل 11اور 14اگست کی تقاریر قائدکو ایک روادار، امن پسند اور بے تعصب راہنما کی حیثیت سے پیش کرتی ہیں۔ وہ دنیا والوں کو دکھاتی ہیں کہ بانی ٔ پاکستان ذہنی و قلبی لحاظ سے بڑی وسعت کے مالک تھے۔
دوسری طرف ہر بھارتی حکومت کی شعوری کوشش ہوتی ہے کہ بانی ٔپاکستان کو تعصب پسند، ہندو دشمن اور انتہا پسند ثابت کیا جائے۔ چونکہ درج بالا دونوں تقاریر اس انداز فکر کی نفی کرتی ہیں، لہٰذا بھارتی وزارت خارجہ انھیں جاری کرنے سے احتراز برتتی رہی ۔
واضح رہے، 1947ء میں موجودہ پاکستانی علاقے میں ایسا کوئی ریڈیو اِسٹیشن موجود نہ تھا جو پوری باریکی و صفائی سے اہم ہندوستانی راہنمائوں کی تقاریر ریکارڈ کر سکتا۔ تب لاہور اور پشاور کے ریڈیواسٹیشن ’’بی کلاس‘‘ میں آتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ قائد اعظم کی11اور 14اگست کی تقاریر ریکارڈ کرنے کے لیے آل انڈیا ریڈیو سے ٹیمیں بلائی گئی تھیں۔
11اگست والی تقریر بی بی سی کی ایک ٹیم نے بھی ریکارڈ کی۔ تاہم وہ اب اس کے ذخیرے میں بھی دستیاب نہیں۔ ریڈیو پاکستان کے سابق ڈائریکٹر جنرل مرتضیٰ سولنگی کا خیال ہے کہ اس اہم تقریر کی ریکارڈنگ ہندو میموریل میوزیم و لائبریری، نئی دہلی میں محفوظ ہو گی۔ تاہم بھارتی حکومت بوجہ اُسے پاکستان کے حوالے نہیں کرنا چاہتی۔
یاد رہے، 11اگست والی تقریر ہی نے 2005ء میں انتہا پسند ہندو جماعت، بھارتیہ جنتا پارٹی کے سربراہ، ایل کے ایڈوانی کو مستعٰفی ہونے پر مجبور کردیا تھا۔ یہ انوکھا واقعہ قابل ذکر ہے۔
ہوا یہ کہ 2005ء میں ایل کے ایڈوانی نے پاکستان کا دورہ کیا۔ وہ بابائے قوم کو خراج عقیدت پیش کرنے مقبرہ قائد اعظم بھی گئے۔ وہاں موصوف نے بانی ٔ پاکستان کی کچھ یوں تحسین فرمائی:
’’تاریخ میں کئی راہنما انمٹ نقوش ثبت کرچکے۔ لیکن چند ہی ہیں جن کے ہاتھوں تاریخ تخلیق ہوئی۔ انہی نایاب افراد میں قائد اعظم محمد علی جناح بھی شامل ہیں۔ جب وہ نوجوان تھے، تو تحریک آزادی کی ممتاز راہنما، سروجنی نائیڈو نے انھیں ہندو مسلم اتحاد کے سفیر کہہ کر پکارا تھا۔ انھوں نے 11اگست 1947ء کو پاکستان کی آئین ساز اسمبلی سے جو خطاب کیا، وہ کلاسیک کا درجہ رکھتا ہے۔ وہ ایک سیکولر مملکت کی نوید سناتا ہے جہاں ہر شہری آزادی سے من پسند مذہب اختیار کرسکتا ہے۔ جہاں حکومت مذہب کی بنیاد پر شہریوں کے مابین تفریق نہیں کرتی۔ میں اس عظیم شخصیت کو پُر تعظیم نذرانہ عقیدت پیش کرتا ہوں…‘‘
یہ الفاظ لکھ کر موصوف بھارت واپس پہنچے، تو بھارتیہ جنتا پارٹی سمیت تمام انتہا پسند جماعتوں نے ایل کے ایڈوانی کو آڑے ہاتھوں لیا۔ دراصل انتہا پسند ہندو تو قائد اعظم ہی کو تقسیم ہند کا ذمے دار سمجھتے ہیں۔ لہٰذا اعتدال پسند ہندوئوں کی حمایت کے باوجود ایڈوانی کو بی جے پی کی قیادت چھوڑنا پڑی۔
14اگست کی تقریر
ذیل میں قائد اعظم کی 14 اگست والی تقریر کا خلاصہ پیش خدمت ہے:
’’میں شاہ برطانیہ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انھوں نے پاکستان کی آئین ساز اسمبلی اور میرے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔
’’ہماری سعی ہے کہ ہم پاکستان میں آباد تمام فرقوں کے لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کریں۔ مجھے یقین ہے، ہر پاکستانی شہری ہمارے نظریۂ فلاحی خدمت سے تحریک حاصل کرے گا۔ وہ اتحاد و یگانگت کے ساتھ ایسی تمام سیاسی و شہری خصوصیات سے متصف ہوں گے جو ایک قوم کو عظیم بناتی ہے۔
’’میں (انگریز) حکومت اور افواج میں شامل ان (غیر مسلم) مرد و زن کے جوش و جذبے کی قدر کرتا ہوں جنھوں نے بہ رضا و رغبت پاکستان کی رضا کارانہ خدمت کرنے کے لیے خود کو پیش کیا۔ ہم انھیں خوش رکھنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ ان کے ساتھ تمام شہریوں کے مانند برابری کا سلوک کیا جائے گا۔‘‘
’’اکبر اعظم نے غیر مسلموں کے ساتھ رواداری اور نیک نیتی کا جو سلوک کیا، وہ کوئی نئی بات نہیں۔ تیرہ صدیاں قبل جب نبی کریم ﷺنے یہود و نصاریٰ کو مفتوح کیا، ان کے ساتھ زبانی نہیں عملی طور پر نہایت شاندار سلوک فرمایا۔‘‘
’’اس موقع پر آپﷺ نے کمال درجے کی رواداری کا مظاہرہ فرمایا اور ان کے ایمان و مذہب کی تعظیم فرمائی۔ مسلمانوں نے جہاں بھی حکمرانی کی، ان کا دور انہی انسان دوست اعمال اور عظیم اصولوں سے عبارت ہے۔ ہمیں بھی انہی اصولوں پر عمل کرنا اور ان کے مطابق چلنا ہوگا۔
’’میں سبھی کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ پاکستان اپنے پڑوسیوں اور دنیا کے سب ممالک سے دوستانہ تعلقات قائم کرنا چاہتا ہے۔‘‘
- See more at: http://urdudigest.pk/2013/12/quid-ki-takarir-ki-recording#sthash.ToNWJQmT.OKYqgUwL.dpuf