اِخلاق برادران
اعتبار ساجد | کہانی
ikhlaq-brathraann
بھائی شرافت حسین، اخلاق حسین کی ہٹی ہمارے علاقے کی مشہور دکان تھی۔ دونوں جڑواں بھائیوں میں بڑا پیار تھا۔ اس لیے ان کی یہ دکان بھائیوں کی ہٹی کہلاتی تھی۔ دنیا کی ہر چیز ان کی ہٹی پر مل جاتی تھی۔
بے شک گاہک جا کر کہہ دے۔’’ایک تولہ خالص شرافت چاہیے بھائی صاحبان۔‘‘
’’مل جائے گی جناب۔‘‘ دونوں بھائی یک زبان ہوکر کہتے۔
’’ڈیڑھ چھٹانک لحاظ، ایک چھٹانک شرم، دو تولے مروت چاہیے۔‘‘
’’پسی ہوئی کہ ثابت؟‘ـ‘ دونوں بھائی پوچھتے۔
’’ثابت ہی دیجیے۔ ’’گاہک کہتا۔‘‘یہ چیزیں تو ویسے بھی پس چکی ہیں۔ خاک کی طرح اڑ رہی ہیں۔‘‘
’’ابھی لیجیے سرکار۔‘‘ دونوں بھائی گودام کی طرف لپکتے۔‘‘ منٹوں سیکنڈوں میں گاہک کی مطلوبہ چیز اس کے حوالے کردیتے۔
شربت اخلاق اور شربت روح شرافت خاص طور پر لوگ انہی کی دکان سے خریدتے تھے۔ سارے شہر میں یہ واحد دکان تھی جہاں اخلاق اور شرافت کے شربتوں میں سکرین کی ملاوٹ نہیں ہوتی تھی۔ دیسی گڑ کی خالص شکر کا شہد جیسا شربت جس کی شفاف بوتلوں میں چاندی کے ورق جگمگاتے تھے لوگ بہت شوق سے خریدتے تھے۔
اسی لیے نفسا نفسی آپا دھاپی، بدمعاشی اور غنڈہ گردی کم تھی۔ بلکہ نہ ہونے کے برابر تھی۔غنڈے اپنے محلے میں سر جھکا کے چلتے تھے۔ بہنوں بیٹیوں کی عزت و حرمت کے رکھوالے تھے۔ کیا مجال کوئی شخص محلے کی کسی بہو بیٹی کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھ لے۔
دن تو دن لوگ رات کو بھی اپنے گھروں کو تالے نہیں لگاتے تھے۔ شوہر کی رات کی ڈیوٹی ہے۔ جوان بیوی گھر پہ اکیلی ہے تو فکر کی کوئی بات نہیں۔ غنڈے بدمعاش ساری رات پہرہ دیں گے۔ صبح کو دروازہ کھٹکھٹا کے پوچھیں گے۔
’’آپاں جی۔ کوئی سبزی ترکاری، دودھ دہی منگوانی ہے تو بتائیں۔‘‘پولیس والے بڑے بوڑھوں کا ہاتھ تھام کے انھیں سڑک پار کراتے تھے۔ بچوں کو اسکول چھوڑنے اور لینے جاتے تھے۔جن بچوں کو سگریٹ پیتا دیکھتے انھیں ان کے ماں باپ کے سامنے لے جاکر تھپڑ رسید کرتے تھے۔
ضمنیاں، روزنامچے اور ایف آئی آر کے رجسٹروں کے صفحے خالی پڑے رہتے۔ نہ کوئی واردات ہوتی نہ کوئی اندراج ہوتا۔ پولیس کی وردی تحفظ اور سکون کی علامت تھی۔ بڑی بوڑھیاں بعض اوقات پولیس والوں سے بیٹوں والے کام لیا کرتیں۔‘‘
وے پتر، ذرا یہ میرا سامان اسٹیشن پہنچادینا اور ریل گڈی کا ٹکٹ بھی دلادینا اور کھڑکی والی سائیڈ پر بھی بٹھا دینا۔‘‘ کبھی حکم دیتیں’’ وے سوہنے پُتر، یہ کپڑے ذرا رنگریز کو دے آنا تیرا بھائی صبح سے کام پر گیا ہوا ہے آئے گا، تو لیتا آئے گا۔‘‘
سپاہی کپڑوں کی پوٹلی بنا کر سائیکل کے کیرئیر پر رکھتا۔ ہاتھ لہرا کر کہتا۔ ’’ماں جی فکر نہ کرو۔ بھائی نہیں تو کیا ہوا میں خود جاتا ہوں۔ ’’دکان پر بیٹھ کر کپڑے رنگوائوں گا۔ جب تک سوکھ نہیں جائیں گے وہیں بیٹھا رہوں گا۔ جب کام میری تسلی کے مطابق ہوجائے گا، تو خود پہنچادوں گا۔‘‘
اسی طرح عورتیں زیورات بھی پالش کرانے کے لیے بھجواتیں۔ کبھی کوئی ہیرا پھیری نہیں ہوئی۔ غریبوں کی شادیوں میں دومیٹھی، دو نمکین دیگیں بھائیوں کی ہٹی سے مفت بھجوائی جاتی تھیں۔ اخلاق برادران خود حاضر ہوتے۔ بیٹی کی شادی ہوتی، تو اسے بساط بھر کپڑا لَتّا دے کر اس کی بارات میں شریک ہوتے۔
بیٹیوں کی رخصتی کے موقعوں پر سگے ماموئوں اور باپوں کی طرح دھاڑیں مارکے روتے تھے۔ بیٹیوں کی بارات میں بچوں کے ساتھ مل کر بھنگڑے ڈالتے تھے۔ ویلیں بانٹتے تھے۔ وہ محبت بھرے دن اور محبت بھری راتیں تھیں
پھر لالچ، ہوس، ناجائز دولت اور اسلحے کی ریل پیل نے ساری قدریں تلپٹ کر کے رکھ دیں محبتیں اور وضعداریاں رخصت ہو گئیں۔ صبر و تحمل جواب دے گیا۔ کاغذی اور منہ بولے رشتے ٹوٹنے لگے۔ ایک دن بڑی بڑی مونچھوں والا شخص بھائیوں کی ہٹی پر آیا۔ تحمکاّنہ لہجے میں بولا۔ ’’کلاشنکوف ہے؟‘‘
دونوں بھائیوں نے سوالیہ انداز میں ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ نفی میں سر ہلا دیا۔ ’’ہم شربت اخلاق اور شربت روحِ شرافت بیچنے والے لوگ ہیں۔ ہم نے تو کلاشنکوف دیکھی تک نہیں۔‘‘
مونچھوں والے نے چمڑے کی بڑی سی جیکٹ کے اندر سے کلاشنکوف نکال کر دکھائی۔ بولا ’’اسے کلاشنکوف کہتے ہیں۔ یہ کسی کا لحاظ نہیں کرتی۔ دن ہو یا رات، یہ کسی سے نہیں ڈرتی۔ آیندہ ہر ہفتے ایک ہزار روپیہ بھتے کے طور پر ہمارے ڈیرے پر باقاعدگی سے پہنچنا چاہیے ورنہ تمھاری خیر نہیں۔ کلاشنکوف اچھی طرح دیکھ لو۔‘‘
یہ کہہ کر کلاشنکوف برادر مونچھوں کو بَل دیتا ہوا چلا گیا۔ دونوں بھائی ایسی صورت سے زندگی بھر دوچار نہیں ہوئے تھے۔ امن پسند اور قانون کا احترام کرنے والے شہری تھے۔ لہٰذا اپنی رودادغم لے کر پولیس کے پاس پہنچے۔
پولیس نے انھیں تسلی دی۔ حوصلہ دیا اور ساتھ ہی یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ زمانہ بدل چکا ہے۔ غنڈوں اور بدمعاشوں سے متھا لگانے یا سینگ پھنسانے کے بجائے زمانے کے ساتھ چلنا چاہیے۔ کیونکہ ایک تو ان کے ہاتھ لمبے ہوتے ہیں دوسرے کلاشنکوف کسی کا لحاظ نہیں کرتی۔
لیکن دونوں بھائی اس تیزی سے بدلتے ہوئے زمانے کا ساتھ دینے کو تیار نہیں تھے۔ ان کا دل مانتا ہی نہیں تھا کہ معاشرہ اس بری طرح بدل جائے گا۔ دونوں نے بھتا دینے سے ڈٹ کر انکار کر دیا۔ کچھ عرصے بعد دن دہاڑے ان کی دکان پر ڈاکا پڑا۔ ڈاکو ایک ایک چیز لے گئے۔
جاتے جاتے انھوں نے ہوائی فائرنگ کی اور دکان کو آگ بھی لگا دی۔ افواہ اڑا دی کہ آپس میں لین دین کا جھگڑا تھا اور آگ اتفاقاً بجلی کا سرکٹ شارٹ ہونے کی وجہ سے لگی۔
بھائیوں کی ہٹی جل کر تباہ ہو گئی۔ انھوں نے شہر چھوڑ دیا۔ ان کے جانے کے بعد دکانیں تو بہت تعمیر ہوئیں۔ لیکن بھائیوں کی ہٹی کسی نے بنانے کی جسارت نہیں کی۔ کیونکہ اب کسی کو شربت اخلاق اور شربت روح شرافت کی ضرورت نہیں رہی۔
لوگوں نے ان چیزوں کو سامان تعیش کی فہرست میں شامل کر کے اپنی زندگیوں سے نکال دیا۔ اب شہروں میں بھائیوں کی ہٹی نہیں بنتی، کاروباری حلیفوں اور حریفوں کے پلازے بنتے ہیں۔
- See more at: http://urdudigest.pk/2014/01/ikhlaq-braddran-2#sthash.qCPFKHL8.dpuf