Search

Ads

Sunday, January 4, 2015

اسم محمد ﷺ کے معانی و تقاضے



اسم محمد ﷺ کے معانی و تقاضے
تحریر: نور احمد نور

ہمارے محبوب رسولﷺ، حضرت محمد الرسول اللہﷺ کے اسمائے گرامی دو (حضرت محمدﷺ، حضرت احمدﷺ) ذاتی اور صفات مبارکہ کے حوالے سے ننانوے اسمائے گرامی صفاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ جل شانہ نے اپنے پیارے رسول مقبول کو ان کے کئی ایک صفاتی اسمائے مبارکہ سے یاد فرمایا اور پکارا ہے۔ کلام میں ثبوت موجود ہیں۔ کبھی یٰسین، کبھی طہٰ، کبھی سراج منیراً، کبھی بشیر و نذیر کے مقدس القابات سے ملقب فرمایا ہے۔

ان تمام صفاتی اسمائے گرامی معانی و مطالب کے بے کنار خزانے مخفی ہیں مگر دو پیارے ذاتی اسمائے گرامی (حضرت محمدﷺ، حضرت احمدﷺ) جن سے صحرائے عرب منور ہو گیا اور عجم کے اندھیرے چھٹ گئے۔ محمدﷺ نام دادا ابو، حضرت عبدالمطلب اور احمدﷺ نام والدہ محترمہ حضرت آمنہ نے بوقت پیدائش رکھا۔ یہ دونوں اسمائے مبارکہ غیبی و القائی صورت میں خالق کائنات نے دونوں شخصیات کے دماغ و ذہن میں ڈالے تھے۔ حضرت محمدﷺ نام کے معنی ہیں مخلوق خدا اور خود اللہ تعالیٰ سے بہت ہی زیادہ تعریف کیا گیا۔ حضرت احمدﷺ نام کے معانی ہیں اپنے الہٰ کی بہت ہی زیادہ تعریف و حمد بجا لانے والا۔

رب العزت کی شان کریمی کا اپنے محبوب رسول ﷺ کے ساتھ لگاوٹ کا یہ عالم ہے کہ اس نے ان دونوں اسمائے گرامی کی یوں حفاظت فرمائی اور وقار بحال رکھا ہے کہ تخلیق آدمیت تا پیدائش جگر گوشہ آمنہ (مرحومہ) روئے زمین پر یہ نام کسی جن و انس کے نہیں پائے گئے۔ حضرت محمدﷺ و حضرت احمدﷺ دو ذاتی اسمائے مبارکہ کی تابانیوں اور تجلیوں سے صبح ازل بھی فیضیاب ہوئی اور شام ابد بھی تابناک اور درخشاں ہے۔ غور کیا جائے تو اسم ”محمدﷺ “ پانچ بابرکت حروف کا مرکب ہے۔ ہر حرف ذو معنی ہے اور ایک ایک حرف ہٹانے سے بقایا لفظ بھی ذو معنی ہی رہتا ہے۔ مثلاً پہلا حرف ”م“ ہے اس سے مراد محبت و الفت و انس ہے؛ اگر اسے ہٹا دیا جائے تو بقایا ”حمد“ کا لفظ رہ جاتا ہے، جس کے معنی بے حد تعریف و توصیف کے ہیں۔ یعنی محمدﷺ ایسی ہستی ہیں جو بے حساب تعریف و توصیف کے لائق ہیں۔ کائنات کی ہر چیز ہر وقت اور خود خالق کائنات بھی آپﷺ پر درودوسلام کے گلدستے نچھاور کرتا ہے۔ آپﷺ اللہ جل شانہ کا وہ شاہکار ہیں کہ جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ ”م“ کے بعد ”ح“ کا حرف بھی ہٹا دیا جائے تو باق ”ممد‘‘ کا لفظ رہ جاتا ہے، جس کے معنی مدد کرنے والا کے ہیں۔ یہ عطائے خداوندی ہے کہ آپﷺ ہمیشہ سے مخلوق کو خالق سے ملانے، ہر نیکی، بھلائی اور رنج و غم میں امت مسلمہ کے مددگار ہیں۔ ح اور م دونوں (متشددم) کو ہٹانے کے بعد ”مد“ کا لفظ رہ جاتا ہے۔ جس کے معنی ”کشیدن“ کھینچنے کے ہیں۔ آپﷺ کے فرامین، احادیث اور ارشادات میں ایسے اوصاف ہیں کہ جو ایک بار ان کی حقیقت کو جان جاتا ہے۔ اسی طرح کھینچا چلا آتا ہے۔ حضوراکرمﷺ کی تعلیم و تبلیغ میں ایسی کشش پائی گئی ہے کہ ایک عالم کو جہالت کے اندھیروں سے نکال کر توحید و ایمان کی روشنی سے منور کر دیا۔ ”مد“ کے اور معنی بلند و بالا کے بھی ہیں جو آپﷺ کی عظمت و رفعت کی طرف اشارہ ہے۔ اس ”م“ کو ہٹا دیا جائے تو باقی (د) کا حرف رہ جاتا ہے، جس کے معنی دلیل دینے والا کے ہیں۔ یعنی آپﷺ جل شانہ کی وحدانیت پر دال ہیں۔ ”د“ کے معنی رہنما کے بھی ہیں، گویا آپﷺ ساری کائنات کے لیے رہبر و رہنما بن کر آئے۔

اسم ”احمد“ یہ اسم مبارک بھی اسی طرح گنجینہ فیوض و برکات ہے۔ یہ اسمائے مبارکہ منبع کرامات و معجزات ہیں۔ مبارک اسم کے تقاضے جیسا کہ مضمون کی ابتداء میں قرآن پاک کے حوالے سے تحریر کیا گیا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے محبوب پیغمبر حضرت محمد اکرم کو جب بھی یاد فرمایا اور پکارا ہے تو حضورﷺ کے القابات سے ہی پکارا ہے۔ آپﷺ کے آداب و احترام، عزت و تکریم اور عظمت و رفعت کے پیش نظر ذاتی اسمائے مبارکہ (حضرت محمدﷺ و حضرت احمدﷺ) سے کبھی نہیں پکارا، یہی اصول دنیائے دوں کے لوگوں کو سکھا دیا ہے کہ اپنے سے بڑے، معزز، علم میں بڑے، عہدے میں بڑے اور خونی رشتوں میں بڑے انسانوں کے آداب ملحوظ رکھتے ہوئے ان کے القاب، صفات عہدے اور خونی رشتے پیش نظر رکھے جاویں، یہی وجہ ہے کہ والدین اپنے والدین کو امی جی اور ابو جی کہہ کر پکارتی ہیں کبھی کسی نے ان نے نام لے لے کر نہیں پکارا یا آوازیں دی ہیں۔